Thursday, January 13, 2011

Symposium on Effective Role of Women in the Reconstruction of Family & Society





















صحت مند معاشرہ کی تعامیر کے لئے مستحکم خاندان کی ضرورت ۔ عورت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے


۔جماعت اسلامی ہند گلبرگہ شعبہ خواتین کے سمپوزیم میں ڈاکٹر شیلا سدّ رام، ڈاکٹر شمیم سریا، محترمہ ششی کلا گیری و محترمہ عطیہ کوثرکا خطابایک

صحت مند ریاست کے لئے ایک صحت مند معاشرہ درکار ہے اور ایک صحت مندمعاشرہ کے لئے ایک صحت مند خاندان درکار ہے ۔ ایک صحت مند خاندان ایک عورت کے کردار سے ہی وجود میں آتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی ہند شعبہ خواتین کی جانب سے آج کنّڑا بھون میں " خاندان اور معاشرہ کی تعمیر نو میں عورت کا مؤثر کردار " کے بعنوان پر منعقد کئے گئے سمپوزیم کی صدارت کرتے ہوئے محترمہ عطیہ کوثر ، لکچرر سرکاری پی۔یو۔کالج ضلع بیجاپور نے کیا۔ کنّڑا زبان میں تقریر کرتے ہوئے موجود وطنی خواتین کو نہ صرب متاثر کیا بلکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت کو عطا کردا مقام و مرتبے کو اجاگرکیا۔ عورت مرکزی کردار اپنے گھر میں ہے۔ اسی کے ذریعہ سے معاشرہ کی تعمیر نو ممکن ہے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب عورت اس ذمہ داری کو محسوس کرے۔آج عورت اپنے مقام اور کرادر سے غافل ہو رہی ہے۔ موجودہ دور کے اعداد و شمار بتاتے ہے کہ عورت اپنی ذمہ داری نہ نبھانے کی وجہ سے ملک میں 1018 اولڈ ایج ہوم قایم کئے گئے ہیں جن میں 140 خاص کر خواتین کے لئے ہیں۔ آج عورت کا ہر جگہ استحصال ہو رہا ہے۔ آج پوری دنیا میں80 ملین ابارشن عمل میں لئے جا رہے جس میں بیشتر لڑکیوں کے حمل کی ہے۔ مغرب کی تعلیمات کو اپنانے میں آج ہم فقر سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں اسی کی وجہ سے اس کا استحصال ہو رہا ہے۔

مہمان خصوصی مکتامبکا اکّنا بڑگا کی صدر محترمہ ششی کلا گیری نے کہا کہ خواتین کی آذادی کا تصور بسونّا کی تعلیمات میں نظر آتا ہے۔ آپ کی تعلیمات کی وجہ سے خواتین مذہبی امور میں بھی آگے تھیں اس کی بہترین مثال اکّہ مہادیوی کے وچنا ہیں۔ لیکن آج عورت کا استحصال ہر محاز پر ہو رہا ہے وہ بھی اس کی آزادی کے نام پر جو ہماری سنسکرتی کے خلاف ہے۔ مر و عورت زندگی اہم ضروریات ہیں ۔ اگر عورت کی ہمت افزائی ہوتی ہے اور اس کو اسکا رول ادا کرنے میں مرد تعاون کرتے ہیں تو وہ پنا گھر، خاندان، اور سماج کی تعمیر نو میں اپنا مؤثر رول ادا کرسکتی ہے۔
بی۔بی۔رضا ڈگری کالج کی معظف پرنسپال ڈاکٹر شنیم سریا اپنی تقریر میں بچوں کی صحیح تربیت کے لئے خاندانی نظام پر زور دیا اور کہا کہخاندان ایک عورت جس میں وہ بحیثیت ماں، بہن، بیٹی، بیوی، دادی، نانی، وغیرہ کے بے شمار کردارادا کرتی ہے کی ضرورت ہے۔ ان تمام کرداروں کی وجہ سے نومولد بچے کی نہصرفٖ نشونماء ہوتی ہے بلکہ ایک بہترین شہری بننے میں اس کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ عورت اور خاندان کو آج اپنا کردار جو سماج کی تعمیر میں اہم ہوتا ہے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن آج خاندان انتشار کا شکار ہو رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ماں بلکہ باپ بھی مساوی ذمہ دار ہے۔عورت کو اپنے کردار کو ادا کرنے کے لئے مذہبی اور اخلاوی طور پر تیار ہوتی ہے تو معاشرہ کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

انّا فوڈ اینڈ نیوٹریشن ریسرچ سینٹر کی ڈئریکٹر ڈاکٹر شیلا سدّرام اپنے خطاب میں کہا کہ عورت کو رول خاندان کو بنائے رکھنے میں ریڑ کی ہڈی کا سا ہے۔ اسی خاندان کی بنیاد پر ہی صحی معاشرہ کی تعمیر ممکن ہے۔ ااج عورت کا ایک ہی مصرف ہے کہ اچھا کھائے اچھا پہنے اور اچھے مکان میں رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو اس سے بھی آگے کام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ اور خاندان کے بگاڑ کی اصل وجہ ٹی۔وی۔غلط استعمال ہے۔ اور کہا کہ آجعورت کا استحصال ہر جگہ ہو رہا ہے۔ اس کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں کیا جارہاہے۔ عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے عورت ہونے پر فخر محسوس کرے جینے کا صحیح ڈنگ اپنائے اور اپنے فریضہ نبھاے۔ اس سے خاندان کا نظام بہترہوگا اور معاشرہ کی تعامیر میں اہم رول ادا کرے گا۔ پروگرام کا آغاز حافظہ خدیجہ کی تلاوت و انگریزی میں ترجمانی سے ہوا۔ محترمہ کوثر بیگم اس کا کنڑا ترجمہ پیش کیا۔

محترمہ سیدہ شکیب فاطمہ اپنے اففتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج انسان کئی ایک محازوں پر انتحائی ترقی کی ہے جس کا تصور چند سال پہلے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس کی اخلاقی گراوٹ اس کو جانور بنا دیا ہے۔ عورت و خاندان جو کبھی معاشرہ میں اہم کردار ادا کرتے تھے وہ آج انتشار کا شکار ہوتی نظر آرہے ہیں۔ آج خاندان بکھر رہے ہیں عورت کا استحصال ہورہا ہے اور وہ اپنے رول سے ناواقف ہے۔ ایسے میں ایک صحت مند معاشرہ کی تعمیر اور عورت کے با وقادر کردار کو بحال کرنے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے اس پر سونچنے کی ضرورت ہے ۔ اسی لئے یہ سمپوزیم جماعت کی جانب سے منعقد کیا گیا ہے۔ محترمہ بشریٰ فاطمہ کلمات تشکر اداد کئے ۔ اس سے پہلے تمام مہمانان کو مومنٹو اور دینے کتابیں تحفتََ دئے گئے۔اس پروگرام میں بڑی تعداد بشمول خواہران طون کی شریک رہی۔

No comments:

Post a Comment