Saturday, December 28, 2013

Gulbarga City Conference for Women on 29.12.2013

Gulbarga City Conference
For Women
“Women: Architect of Humanity”
On Sunday, the 29th December 2013-12-27 Time: 11.00am to 02.00pm
Venue: Faraan College, Darga Road, Gulbarga

The Program

Quranic Discourse
Mrs Asra Kausar
Organizer, JIH Women`s Wing, Khaja Colony, Gulbarga

Inaugural Address
Mrs Sirajunnisa Begum
Dist Organizer, Women`s Wing, JIH Gulbarga Dist

Speech on
Islamic Rules for Marriage & other rituals
Mrs Tasneem Fatima Siddique,  
Organizer, JIH Women`s Wing, Seerat Colony, Gulbarga

Speech on
Problems of Modern Women & their solutions
Mrs Akhtar Sultana
Organizer, JIH Women`s Wing, Rahmathnagar, Gulbarga

Speech on
The Role of Women in the Betterment of the Society
Mrs Kausar Fatima
City Organizer, Women`s Wing, JIH Gulbarga

Presidential Address
Mrs Sajidunnisa Begum
State Organizer, Women`s Wing, JIH Karnataka

A Drama & Islamic Songs will be played by GIO sisters

All women with their Daughters, sisters, mothers and friends are requested to attend in huge numbers.
Women`s Wing

Jamaat e Islami Hind, Gulbarga

Monday, December 23, 2013

Program at MSK Mills on 22.12.2013


جو روشنی مسلمانوں کے پاس ہے اسکو اہل وطن کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔


جماعت اسلامی ہند گلبرگہ کے دعوتی اجتماع میں ذاکر حسین ، سید ساجد سلیم، سید تنویر ہاشمی، محمد یوسف خان، محمد ضیاء اللہ، عبدالقدوس کا خطاب 


اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات واختیارات میں شرک کرنا بہت بڑا گناہ ہے اس سے بچتے ہوئے توحید خالص کو لازماََ پکڑنا چاہئے اور اسی کے ذریعہ کامیابی ممکن ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے شعوری تعلق ضروری ہے۔ ان خیالات کو آج محمدی فنکشن ہال میں جماعت اسلامی ہند گلبرگہ کی جانب سے منعقد کئے گئے کل یومی دعوتی اجتماع میں اختتامی خطاب کرتے ہوئے امیر مقامی ذاکر حسین نے کیا۔ آپ نے کہا کہ اس ملک میں مسلمانوں کی منفرد حیثیت ہے کہ وہ اس ملک میں کاشت کرتے ہوئے خود بھی زندہ و پائندہ رہیں اور اسلام کی سربلندی کے لئے کوشش کرتے رہیں۔ ذاکر حسین نے کہا کہ اس ملک میں صرف مسلمانوں کے پاس خداکی طرف سے نازل ہونے والی روشنی اپنی اصل حیثیت میں ہے اس کے ذریعہ وہ دیگر اقوام کو روشنی دکھائیں۔ اس کے لئے نبی کریم ﷺ ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ ایک حدیث کے حوالے سے آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تم پر وہ فرائض عائد کئے ہیں جن کو اس سے پہلے نبیوں و پیغمبروں پر عائد کیا گیا تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کو 
انسانوں کو انسانوں کیغلامی سے نکال کر خدا کی غلامی میں لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ 

پروگرام کا آغاز سید ساجد سلیم کے درس قرآن سے ہوا۔ سورۃ الحج کی آخری دو آیات کی روشنی میں درس دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان آیات میں رکوع و سجدہ کرنے، بندگی رب بجا لانے اور نیک کام کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رکوع و سجود کے مفہوم میں نماز اور بندگی رب میں اپنی پوری زندگی کو رب کی مرضی پر چلاناہوتا ہے اور وہ نیک کام کرنا چاہئے جن سے انسانوں کا بھلا ہوتا ہو۔ آپ نے کہا کہ اللہ کی رہ میں ایسی جد وجہد کرنا ہے کہ اس کا حق ادا ہوجائے۔ آپ نے کہا کہ اللہ تعلیٰ جہاد کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن دور جدید میں اس کے معنی کو اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ اس لفظ سے لوگ خوف کھانے لگے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جو ظلم و زیادتی اور نافرمانی ہورہی ہے اس کے خلاف جد وجہد کا نام جہاد ہے۔ آپ نے کہا کہ جس طرح حضرت ابرھیم ؒ نے ایک اطاعت گزار و فرمابردار بندہ ہونے کا سبوط دیا اسی طرح ہمارے لئے بھی لازم ہے کہ بندگی رب و مسلمان ہونے کے تمام تقاضے پورے کریں۔ 

اجتماعیت : سلام میں اس کا مقام اور امیتعنوان پر خطاب کرتے ہوئے محمد ضیاء اللہ نے کہا کہ انسان دور قدیم سے ہی اجتماعیت پسند واقع ہوا ہے۔ اسلام اس کو پروان چڑھانا چاہتا ہے کیوں کہ اسلام دین فطرت ہے۔ آپ نے کہا کہ یہ اللہ تعلیٰ کا حکم بھی ہے اور نبی کریم ﷺ کے بیشمار ارشادات سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اجتماعیت سے جڑکر رہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر اس کی کامیابی ناممکن ہے۔ مسلمانوں کے تمام عبادات چاہے نماز ہو کہ روزہ، حج ہو کہ زکوۃ اسی بات کی تلقین کرتی ہیں کہ اجتماعیت کی اہمیت اسلام میں کیا ہے۔ دنیوی معاملات کے سلسلے میں بھی یہ بات بتائی گئی ہے کہ بیابان میں اگر تین آدمی ہوں تو ان میں ایک امیر ہونا چاہئے اور تین لوگ مل کر صفر کر رہے ہوں تو ان میں ایک کو امیر بنانا چاہئے۔ اگر کوئی اجتماعیت سے جڑ کر زندگی نہیں گزارتا تو اس کو شیطان اچک لیتا ہے، ماحول کے غلط اسرت اس پر پڑتے ہیں، دین کی اتباع کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور دین کے کم سے کم مطالبات بھی پورے کرنا اس کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔ 

انسانی زندگی پر نظام حکومت کے اثرات عنوان پر خطاب کرتے ہوئے سید تنویر ہاشمی نے مختلف نظام ہائے حکومت کے طرز حکومت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ مذہب کے نام پر چرچ کی حکومت یوروپ میں ہوا کرتی تھی ۔ لوگوں کی بڑی تعداد اس کے تحت تھی لیکن چرچ کی زیادتی ک وجہ اس کی جگہ سوشیلزم اور جمہوریت نے جنم لیا۔ روس و چین میں کمونسٹ نظام کے نافظ ہونے کی وجہ سے وہاں کے کسانوں کی زمینوں کو حکومت اپنے قبضہ میں لے لیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قومی پیداوار میں نمایا کمی واقع ہوتی ہے۔جو کہ کروڑوں انسانوں کوبھوک کی وجہ سے مارے جانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ امریکی جمہوریت پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ جمہوریت میں جہاں پر عوام کی مرضی چلتی ہے وہ کس طرح معاشرہ پر اثر انداز ہوتی ہے کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ پہلے پہل نوجوان نسل کے لئے اخلاقی تعلیمات کو پڑھانے کا نظم تھا ۔ کچھ عرصے بعد لوگوں نے اس کو غیر ضروری محسوس کیا تو اسکو نکالا گیا اور پھر ایک دور آیا کہ جنسی تعلیم اسکول و کالج میں دی جانے لگی یہاں تک کہ ہم جنس پرستی کی باضابطہ ویڈیؤ دیکھنا لازمی کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں آج امریکی سوسائیٹی جو اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوئی اور آج اس کا یہ حال ہے کہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کونہیں معلوم کے انکا باپ کون ہے۔ ان کے مخابلے میں اسلام جو نظام حکومت پیش کرتا ہے اس میں اللہ کے احکامات کو بنیاد بنایا جاتا ہے اور انسان اس کا خلیفہ ہونے کے ناتے وہ ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ یہاں پر انساوں کو صرف انہیں معاملات میں قانون بنانے کی گنجائش ہوتی ہیں جہاں قرآن و سنت خاموش رہتی ہیں۔ اس لئے اسلامی نظام حکومت ایک نظام رحمت ہوتا ہے۔

اقامت دین : مفہوم اور طریقہ کار کے عنوان پر اظہار خیال کرتے ہوئے محمد یوسف خان نے کہا کہ دین سے مراد وہ دین ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے پیغمبروں کے ذریعہ ہم تک پہنچا اور اس کی آخری ایڈیشن کے طور پر نبی کریم ﷺ پر ناز ل ہوا۔ اس کی اقامت کا مطلب ہے کہ جس طرح وہ ناز ل ہوا ہے اسی طرح انسانی زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اس کو نافظ کیا جائے۔ اسی کے لئے آپ نے کہا کہ امت مسلمہ کو وجود میں لایا گیا ۔ خیر امت ہونے کے ناطے وہ شہادت الناس کا فریضہ انجام دے اور نظام کو تبدیل کرنے کی کوش کرے۔ اس کے طریقہ کارپر اظہار کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ قرآن و سنت کی روشنی میں دستوری و آئینی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے تعلیم و تربیت، تفہیم و تذکیر کے ذریعہ ایک ایک فرد کو مخاطب ہوتے ہوئے فرد کی زندگی میں تبدیلی لانے کی کوش کرے گی اور رائے عامہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی۔ ان تمام معاملات میں اخلاقی قدروں پر عمل کرے گی۔ 

دوپہر کی نشست میں رفیق خان درانی نے فکر آخرت کے عنوان پر درس حدیث پیش کیا اور عبدالقدوس نے حالیہ انتخابات اور ہمار اموقف عنوان پر اظہار خیال کیا۔ محمد عبدالقادر منصوری اور محمد ضیاء الحق نے دنوں نشتوں میں بالترتیب نظامت کے فرائض انجام دئے۔ محمد مظہرالدین نے افتتاحی کلمات و کلمات تشکر پیش کیا۔ بڑی تعداد میں شرکاء شریک رہے۔

Saturday, December 21, 2013

Dawati Ijtema on 22nd December 2013


You are invited to the
One day Dawati Ijtema
(one day conference) 
At Mohammadi Function Hall, MSK Mills, Gulbarga 
On Sunday the 22nd December 2013
From 10.45am to 04.10pm

The Program

Quranic Discourse on 
"Surah Alhaj 77-78"
Jb Syed Sajid Saleem 

Inaugural Address
Jb Mohammed Mazharuddin

Speech on
“Importance of Collective Life in Islam” 
Jb Mohammed Ziaullah

Speech on
“Effect of System of Governance 
on the life of an individual” 
Jb Syed Tanveer Hashmi

Speech on
“Aqamat e Deen(Establishment of Devine Rule), 
Meaning and Requirements”
Jb Mohammed Yousuf Khan

Hadees Discourse on
“Frikr e Akhirat (Fear of Life after Death)”
Jb Rafeeq Khan Durani

Speech on
“Recent Election and Our Stand (Policy)”
Jb Abdul Quddus

Concluding Address
Jb Zakir Hussain, 
President JIH Gulbarga

JIH Gulbarga Women`s Press Conference on "Women: The Architect of Humanity" Campaign




The Women’s wing of Jamaat e Islami Hind, Karnataka is organizing Taluka Women’s Conferences all over Karnataka from 15th to 31st December 2013 on the theme “Women: The Architect of Humanity” said Mrs Sajidunnisa Begm , State Organizer of Womens wing while addressing the Press Conference called here at Press Club Gulbarga on Friday(20.12.2013). She told the press persons that the women today is deprived of performing the duties she is supposed to do for the formation of the Just Society as it is she who nourishes the future generation. She said the women in the name of freedom, has been forced to take on the additional burden of the society. As a result she is been deprived of a decent living. She became the target of men’s lust leading to her exploitation, torture, rape & killing.

There to bring awareness among the general women & make them aware of the duties & responsibilities as guided by their creator, Jamaat e Islami Hind is organizing these conferences.

In Gulbarga District the conferences are being on these days
Jewargi on Sunday 22.12.2013
 Sedam on Monday 23.12.2013
Yadgir on Tuesday 24.12.2013
Shorapur on Saturday 28.12.2013
Gulbarga on Sunday 29.12.2013
Shahabad on Monday 30.12.2013
Aland on Tuesday 31.12.2013

Monday, December 16, 2013

AIITA program on Quality Education: Issues & Solutions

The quality education should develop a child personality to the extent that it can handle the situations arising in his life and create a sense of responsibility in him. These were the words expressed by Dr Mohammed Muazam Ali, Member Advisory Council, JIH Gulbarga while presiding over a Symposium on “Quality Education: Issues & Solutions”  by All India Ideal Teachers Association Gulbarga at Faraan College on Sunday the 15th December 2013. He said, the teaching we impart to the students should make him able to differentiate between the right & the wrong and make him stand for the righteous cause and develop a sense of duty towards the downtrodden.





Moulvi Mohammed Fahimuddin Bidar, Member State Advisory Council, JIH Karnataka, speaking on the occasion said, Quality education in need of the hour. Unfortunately the students today are becoming book worms but they are completely unaware of the love affection with their parents & siblings. In such an atmosphere it is the duty of the teacher to mould him with his love, affection and special care. He said in doing so a teacher can create a good teacher, a good doctor, a good engineer, a good administrator & so on. He accepted that there are many challenges in this field but a good & responsible teacher should face them with great patience, wisdom. He called upon the teachers to remove a sense of slavery instead inculcate in them the creativeness.


Mr Mohammed Nizamuddin, State President AIITA, called upon for proper utilization of human resources by quality education and in this regard the government should ear mark huge amounts.


Dr Kausar Parvbeen, renown scholar & teacher National High School, Gulbarga said that the quality education means the overall development of the child. She expressed anguish over the fact that the children are so over burdened that they do not have time to play, listen to the rhymes from their mother & moral stories from their grandmothers. In such a situation how is it possible that a child can develop into a responsible person she asks? Speaking on the importance of imparting education in mother tongue she said that one can learn any language if he/she is well versed with mother tongue. Our Prime Minister Dr Manmohan Singh studied in Urdu she said.


Dr Abdul Rub Ustad, professor of Gulbarga University told to emulate the self less service rendered by senior teachers. Mr Mohammed Farooq KES, Principal Adarsh High School, called upon the teachers to be well versed with the latest knowledge & technology.
The program was started with Quranic discourse from Mr Shakeel Ahmed, Secretary AIITA Gulbarga, Mr Miohammed Abdul, Dist President AIITA Gulbarga delivered inaugural address. Mr Mohammed Javed Iqbal convened the program. A large number of teachers including women participated. 
 

Tuesday, November 26, 2013

Shanthi Prakashana Silver Jubilee Celebrations at Gulbarga: A Review


















UÀÄ®âUÁðzÀ°è ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ gÀdvÀ ªÀĺÉÆÃvÀìªÀzÀ MAzÀÄ CªÀ¯ÉÆÃPÀ£À
±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ gÀdvÀ ªÀĺÉÆÃvÀìªÀzÀ CAUÀªÁºÀV UÀÄ®âUÁðzÀ°è ¢£ÁAPÀ £ÀªÉA§gï 10-17 gÀªÀgÀUÉ PÀ£ÀßqÀ ¨sÀªÀ£ÀzÀ ¸À¨sÁAUÀtzÀ°è §ÈºÀvï ¥ÀĸÀÛPÀ ªÉÄüÀ ªÀÄvÀÄÛ ºÀ®ªÀÅ PÁAiÀÄðPÀæªÀļÀ£ÀÄß ºÀ«ÄäPÉƼÀî¯ÁVvÀÄÛ. GzÀÄð ¥ÀæZÀ°vÀ ¥ÀæzÉñÀzÀ°è ªÀÄvÀÄÛ ªÀÄĹèAgÀ°è ¸ÁªÀiÁ£ÀåªÁV PÀ£ÀßqÀzÀ §UÉÎ D¸ÀQÛ«®èzÀAvÀºÀ £ÀUÀgÀzÀ°è ºÀ«ÄäPÉƼÀî¯ÁzÀ F ªÉÄüÀªÀ£ÀÄß ¨sÉÃn ¤ÃrzÀªÀgÀ°è §ºÀÄvÉÃPÀ zÉñÀ¨ÁAzsÀªÀgÀÄ. ªÀÄ»¼É, ªÀÄPÀ̼ÀÄ »jAiÀÄgÀÄ ªÀÄ¥Àæw¢£À CZÀÄÑPÀmÁÖV, DPÀ±ÀðPÀªÁV ¥ÀæzÀ±Àð£ÀPÀÌlÖ ¥ÀĸÀÛPÀUÀ¼À£ÀÄß ¸ÀÆPÀëöäªÁV £ÉÆÃr, N¢ vÀªÀÄUÉ »r¹zÀ ºÀ®ªÁgÀÄ ¥ÀĸÀÛPÀUÀ¼À£ÀÄß CªÀgÀÄ Rjâ¹zÀgÀÄ.

¸À¨sÁAUÀtzÀ°è E¸ÁèA ªÀÄvÀÄÛ ±ÁAw¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ §UÉÎ gÁdåzÀ zsÁ«ÄðPÀ UÀtågÀ ªÀÄvÀÄÛ »jAiÀÄ ¸Á»wUÀ¼À ºÉýPÉUÀ¼À£ÀÄß CªÀgÀ avÀæzÀ ªÀÄÆ®PÀ ¥Àæw©A©¹gÀĪÀÅzÀÄ §ºÀÄvÉÃPÀ d£ÀgÀ£ÀÄß DPÀ¶ð¸ÀĪÀÅzÀ®èzÉ ¥ÀæzÀ±Àð£À ªÀÄvÀÄÛ ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ zsÉåÃAiÉÆÃzÉñÀ CjAiÀÄÄAvÁ¬ÄvÀÄ. EAvÀºÀ ¥ÀæzÀ±Àð£ÀªÀ£ÀÄß ºÀ®ªÀgÀÄ ªÀÄÄUÀÞ PÀAoÀ¢AzÀ ºÉÆUÀ½zÀgÀÄ.
¥ÀæzÀ±Àð£ÀzÀ°è vÀªÀÄä C¤¹PÉUÀ¼À£ÀÄß ªÀåPÀÛ¥Àr¸À®Ä EqÀ¯ÁzÀ ¥ÀĸÀÛPÀzÀ°è ºÀ®ªÁgÀÄ d£ÀgÀÄ vÀªÀÄä C¤¹PÉUÀ¼À£ÀÄß §gÉAiÀÄÄvÀÛ ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ F PÉÆqÀÄUÉ CzÀÄâvÀªÁVzÉ. EzÀjAzÀ E¸ÁèA w½AiÀÄ®Ä d£ÀjUÉ C£ÀÄPÀÆ®ªÁUÀĪÀÅzÀgÀ eÉÆvÉUÉ ¸ÀªÀiÁdzÀ°è ¸ÁªÀÄgÀ¸Àå ¨É¼ÉAiÀÄ®Ä ¸ÀºÁAiÀÄPÀªÁUÀĪÀÅzÀÄ JAzÀÄ n¥Ààt §gÉ¢gÀÄvÁÛgÉ. eÉÆvÉAiÀÄ°è EAvÀºÀ ªÉÄüÀUÀ¼ÀÄ ¥Àæw vÁ®ÆQ£À°è DAiÉÆÃf¸À®Ä PÉÆÃjgÀÄvÁÛgÉ.

¥ÀæzÀ±Àð£ÀzÀ GzÁÏl£Á PÁAiÀÄðPÀæªÀÄPÀÄÌ ªÀÄÄAZÉ £ÀUÀgÀzÀ «Ä¤ «zsÁ£À ¸ËzsÀ¢AzÀ MAzÀÄ ±ÁAw gÁåj¬ÄAzÀ PÀ£ÀßqÀ ¨sÀªÀ£ÀzÀ DAiÉÆÃf¸À¯Á¬ÄvÀÄ. ¸ÀgÀzÁgÀ ªÀ®è¨sÁ¬Ä ªÀÈvÀÝ §½ ªÁºÀ£À NqÁlPÉÌ vÉÆAzÀgÉAiÀiÁUÀzÀAvÉ PÉ® PÁ® ªÀiÁ£ÀªÀ ¸ÀgÀ¥À½ ¤«Äð¹ ±ÁAw ¸ÀAzÉñÀ ¸ÁgÀ¯Á¬ÄvÀÄ. ¸ÁéUÀvÀ ¸À«ÄwAiÀÄ CzÀåPÀëgÁzÀ C¥ÁàgÁªÀ CPÉÆÌÃt gÀªÀgÀ £ÉÃvÀÈvÀézÀ°è dgÀÄVzÀ F gÁå°AiÀÄ°è £ÀÆgÁgÀÄ d£À ¨sÁUÀªÀ»¹zÀÝgÀÄ.

¥ÀæzÀ±Àð£ÀzÀ ¢£ÀUÀ¼À°è ¥Àæw¢£À ¸ÀAeÉ UÀÄ®âUÁð «±Àé«zÁå®AiÀÄ ªÀÄvÀÄÛ PÉÃA¢æÃAiÀÄ «±Àé«zÁå®AiÀÄ ¨ÉÆÃzsÀPÀgÀ G¥À£Áå¸À K¥Àðr¸À¯ÁVvÀÄÛ. MAzÀÄ ¢£À PÀ£ÀßqÀ PÀ«UÉÆÃ¶× K¥Àðr¸À¯ÁUÁ CzÀgÀ°è 18 d£À PÀ« ªÀÄvÀÄÛ PÀ«AiÀÄwæAiÀÄgÀÄ ±ÁAw, ¸ÀºÀ¨Á¼Éé, ¸ÁªÀÄgÀ¸Àå, ¸Á»vÀå, ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£À EvÁå¢ «µÀAiÀÄUÀ¼À ªÉÄÃ¯É CZÀÄÑPÀmÁÖV §gÉzÀ vÀªÀÄä PÀ«vÉUÀ¼À£ÀÄß N¢ ºÉüÀĪÀ ªÀÄÆ®PÀ ¥ÉæÃPÀëPÀgÀ ªÀÄ£À¸ÀÄì vÀ®èt¹zÀgÀÄ. EzÀgÀ eÉÆvÉAiÀÄ°èAiÉÄà E£ÉÆßAzÀÄ ¢£À GzÀÄð PÀ« UÉÆõÀ× ¸ÀºÀ K¥Àðr¸À¯Á¬ÄvÀÄ.

UÀÄ®âUÁðzÀ ¸ÀAa ¸ÁgÀA¨sÀ §¼ÀUÀzÀ ªÀw¬ÄAzÀ ¥Àæ¸ÀÄÛvÀ gÁdQÃAiÀÄzÀ°è ¨sÀæµÁÖZÁgÀ ªÀÄvÀÄÛ  CzÀjAzÀÄmÁUÀÄwÛgÀĪÀ CªÀåªÀ¸ÉÜAiÀÄ£ÀÄß ªÀåPÀÛ¥Àr¸ÀĪÀ MAzÀÄ £ÁlPÀ “ ¸À£Áä£Àå ¸ÀaªÀgÀ ¸ÁªÀÅ” ¥ÀæzÀ²ð¸À¯Á¬ÄvÀÄ. ºÁUÀÄ £ÉÆç®ð PÁ¯ÉÃdÄ «zÁåyðUÀ½AzÀ “ªÀgÀzÀQëuÉAiÀÄ ¦qÀÄUÀÄ” JA§ £ÁlPÀªÀ£ÀÄß ¸ÀºÀ ¥ÀæzÀ²ð¸À¯Á¬ÄvÀÄ.

±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ F gÀdvÀ ªÀĺÉÆÃvÀìªÀzÀ CAUÀªÁV K¥Àðr¸À¯ÁzÀ ¥ÀæzÀ±Àð£À ºÁUÀÄ ««zsÀ PÁAiÀÄðPÀæªÀÄUÀ¼À£ÀÄß DAiÉÆÃf¸À®Ä £ÀUÀgÀzÀ ºÀ®ªÁgÀÄ UÀtågÀÄ ««zsÀ gÀÆ¥ÀzÀ°è ¸ÀºÀPÁgÀ ¤ÃrzÀgÀÄ. ²æà C¥ÁàgÁªÀ CPÉÆÌÃtÂ, ¤zÉÃð±ÀPÀgÀÄ(¤ªÀÈvÀÛ), ªÁvÁð ªÀÄvÀÄÛ ¥ÀæZÁgÀ E¯ÁSÉ AiÀĪÀgÀÄ vÀªÀÄä ºÀ®ªÁgÀÄ PÁAiÀÄðPÀæ£ÀªÀÄUÀ¼À°èAiÀÄÆ ¸ÀA¥ÀÆtð ¸ÀºÀPÁgÀ ¤ÃqÀÄvÁÛ ¥Àæw¢£À PÁAiÀÄðPÀæªÀÄUÀ¼À°è ¨sÁUÀªÀ»¸ÀÄvÁÛ ¥ÉÆæÃvÁìºÀ ¤ÃrzÀgÀÄ. ¦.r.J.EAf¤AiÀÄjAUï PÁ¯ÉÃf£À G¥À£Áå¸ÀPÀgÁzÀ ºÁUÀÄ «±Àé °AUÁAiÀÄvÀ ªÀĺÁ ¸À¨sÁ UÀÄ®âUÁðzÀ CzsÀåPÀëgÁzÀ ¸ÀAdAiÀÄ ªÀiÁPÀ¯ï ªÀÄvÀÄÛ ¤ªÀÈvÀÛ rJ¹à AiÀÄgÁzÀ Dgï. ¹. WÁ¼É vÀªÀÄä ¸ÀvÀvÀ EgÀÄ«PɬÄAzÀ ªÀÄvÀÄÛ CªÀÄÆ®å «ZÁgÀ UÀ½AzÀ PÁAiÀÄðPÀæªÀÄUÀ½UÉ PÉëÆèsÉ vÀAzÀgÀÄ. UÀÄ®âUÁð f¯Áè PÀ£ÀßqÀ ¸Á»vÀÛAiÀÄ ¥ÀjµÀwÛ£À CzsÀåPÀëgÁzÀ ªÀÄ»¥Á® gÉrØ, £ÀÈ¥ÀvÀÄAUÀ ¥ÀwæPÉAiÀÄ ¸ÀA¥ÁzÀPÀgÁzÀ ²ªÀgÁAiÀÄ zÉÆlªÀĤ gÀªÀgÀÆ ¸ÀzÁ ¸ÀºÀPÁjAiÀiÁVzÀÝgÀÄ. ¸ÀªÀiÁd ¸ÉêÀPÀgÁzÀ ªÉÄÃgÁd ¥ÀmÉî ªÀÄvÀÄÛ ªÀĸÁÛ£ï ©gÁzÁgÀ ¥Àæw ¢£ÀzÀ PÁAiÀÄðPÀæªÀÄUÀ¼À£ÀÄß ¤gÀƦ¸ÀĪÀ°è ¸ÀºÀPÁjAiÀiÁVzÀÝgÀÄ.

£ÀUÀgÀzÀ°è £ÀqÉzÀ F ¥ÀæAiÀÄvÀß ±ÁAw ¸ÁªÀÄgÀ¸ÀåzÀ ªÁvÁªÀgÀt PÁ¬ÄÝj¸À®Ä ¸ÀºÀPÁjAiÀiÁUÀ° JAzÀÄ ºÁgÉʸÀÄvÉÛêÉ.

شانتی پرکاشنہ کی عظیم نمائش کا کامیاب انعقاد

بردارن وطن بڑی تعداد میں آئے، کتابیں خریدے اور بہترین تاثرات پیش کیا

جماعت اسلامی ہند کرناٹک کی جانب سے اسلام کے پیغام کو کنرا عوام تک پہنچانے کی خاطر قائم کئے گیا ادارہ شانتی پرکاشنہ کے پچیس سال کی تکمیل کے بہانے شہر میں ایک عظیم کتب میلے کا انعقاد عمل میں لا یا گیا۔گزشتہ اتور سے اس اتوار تک کنڑا بھون میں منعقد ہوئے اس عظیم و پرکشش کتب میلے میں شانتی پرکاشنہ کی تمام 250 عنوانات کی کتابیں بڑے خوشنما انداز میں سجاسجا کر پیش کی گئیں۔ پورے حال میں اسلام ، شانتی پرکاشنہ کے لٹریچر کے بارے میں ریاست کرناٹک کی مشہور ادیب حضرات و مذہبی رہنماؤں کے تاثرات پر مبنی پوسٹر لگائے گئے تھے جو لوگوں کے لئے مزید توجہ کا مرکز بنی۔شہر کے اہم مقامات پر بڑے بڑے ہورڈنگ اور پوسٹر کے ذریعہ اس کی تشہیر کی گئی۔ روازانہ صبح دس بجے تا شام نو بجے تک لوگوں کے لئے اس کو کھلا رکھا گیا تو ہر وقت کم از کم 5-7 برادران وطن اس میں موجود رہتے مختلف کتابوں کا جائزہ لیتے اور کچھ کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھے گئے۔وطنی خواتین و بچے بھی تے رہے۔کتابیں خریدنے والوں میں 95فی صد سے زیادہ برادران وطن ہی تھے۔ وہاں پر رکھی گئی تعاثراتی کتاب میں سینکڑوں لوگوں نے اپنے تاثرات لکھتے ہوئے بڑی مسرت کا اظہار کیا کہ اتنے بہترین انداز میں اسلامی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے ۔ بڑی خوشی ہوئی۔ اسلام کی تعلیمات کو عوام تک پہنچانے کی خدمت بیش بہا ہے۔ اس کے ذریعہ اس کو سمجھنے اور اس کے ضمن میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ کئی لوگوں نے اس طرح کے میلے ہر تعلقہ میں منعقد کرنے کا مطالبہ کیا ۔ نمائش کے دنوں میں روزانہ شام گلبرگہ ینورسٹی و سینٹرل ینورسٹی کے مختلف پروفیسر س کے لیکچرس کا اہتمام کیا گیا جو بڑا کامیاب رہا۔ اس کے تحت شہر کی بڑی بڑی علمی شخصیات تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے کا نہ صرف ذریعہ بنا بلکہ انہیں ان کا مطالعہ کرکے پیش کرنے میں ترغیب ملی۔ اس کا نتیجہ تھا کہ چند ایک نے اپنے تقریر میں اسلام کی حقانیت کا اظہار بھی کیا۔ نمائش کے دنوں میں ایک کوی گوشٹی بھی منعقد کی گئی جس میں مرد و خواتین اپنے کالم کو پیش کیا۔ اس مشاعرہ کی خوبی یہ تھی کہ ہر ایک نے اپنے بہترین کلام کو تمام شائستگی کے حدود میں رہتے ہوئے بڑی دلکش اور بہ معنی اور بہ مقصد اشعار پیش کرنے کی کوشش کی۔ تمام گندگیوں سے پاک ان کے کلام نے شرکاء کی تحسین حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس کوی گوشٹی کے ذریعہ یہ بات عیاں ہوئی کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جس میں خواتین بھی ہے اس فن میں ماہر ہیں۔ انہیں موقعے ملنا چاہئے۔ اس نمائش کو منعقد کرنے کے لئے استقبالیہ کمیٹی بنائی گئی جس میں مختلف میدانوں میں اپنی اپنی خدمات انجام دے رہے برادران وطن کی بڑی شخصیات کا تعاون ملا۔ اپا راؤ اکونی، مہیپال رڈی منور، سنجے ماکل، آر سی کھاڑے، شو رایا دوڈمنی، بسنا سنگھے، ہمارے قریب ہوئے۔ توقع کی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کے ذریعہ اور بھی تعاون کی شکلیں نکالی جاسکتی ہیں۔استقبالیہ کمیٹی میں مستان برادار و معراج پٹیل کی موجودگی اور ان کا بھرپور تعاون ان پروگراموں کو کامیاب بنانے کا باعث بنا۔ بہر حال اسبہانے جو مواقع اسلام کو برادران وطن تک پہنچانے کے ملے ہیں اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو قبول کرتے ہوئے جن تکتک یہ روشنی پہنچی ہے ان کے دلوں کو روشن کرنے کی دعا زبان سے نکلتی ہے۔

Concluding Program











UÀÄ®âUÁð zÀ°è ±ÁAwUÁV ¸Á»vÀåzÀ ¸ÀªÀiÁgÉÆÃ¥À
¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ ªÀÄÆ®PÀ PÉÆêÀÄÄ ¸ÁªÀÄgÀ¸Àå ¸ÁzsÀå

¸ÀªÀiÁd PÀlÄÖªÀ PÉ®¸À ªÀiÁqÀÄwÛgÀĪÀ ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£À EzÀĪÀgÉUÀÆ ¸ÀªÀiÁd MqÉAiÀÄĪÀ ¥ÀĸÀÛPÀUÀ¼À£ÀÄß ¥ÀæPÀn¹®è JAzÀÄ PÀ¼ÉzÀ ¨sÁ£ÀĪÁgÀ UÀÄ®âUÁðzÀ PÀ£ÀßqÀ ¨sÀªÀ£ÀzÀ°è ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ gÀdvÀ ªÀĺÉÆÃvÀìªÀzÀ CAUÀªÁV £ÀUÀgÀzÀ°è ºÀ«ÄäPÉÆAqÀ §ÈºÀvï ¥ÀĸÀÛPÀ ªÉÄüÀzÀ ¸ÀªÀiÁgÉÆÃ¥À ¸ÀªÀiÁgÀA¨sÀzÀ CzÀåPÀëvÉ ªÀ»¹ ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ ¸ÀzÀ¸Àå ªÀÄĺÀªÀÄäzï E¸ÁíPï ªÀÄAUÀ¼ÀÆgÀÄ ªÀiÁvÀ£ÁrzÀgÀÄ.

DªÀiÁCvÉ E¸Áè«Ä »Azï ªÀw¬ÄAzÀ 1988 gÀ°è ¸Áܦ¸À¯ÁzÀ F PÀ£ÀßqÀ ¥ÀæPÁ±À£ÀªÀÅ E¸ÁèA zsÀªÀÄðzsÀ £ÉÊd ªÀiË®åUÀ¼À£ÀÄß PÀ£ÀßrUÀjUÉ ¥ÀjZÀ¬Ä¸ÀÄvÁÛ ¸ÀªÀiÁdzÀ°è ¸ÀºÀ¨Á¼Éé PÉÆêÀÄÄ ¸ËºÁzsÀð £É¯É¸ÀĪÀAvÉ ªÀiÁrzÉ JAzÀgÀÄ.

zÉñÀzÀ°è EAzÀÄ ¸ÀAWÀµÀðªÀÄAiÀÄ ªÁvÁªÀgÀt ¤ªÀiÁ±ÀðtªÁVzÉ. PÉÆêÀÄÄ ±ÀQÛUÀ¼ÀÄ §¯ÁqsÀåªÁUÀÄwÛªÉ. EAvÀºÀ ¸ÀªÀÄAiÀÄzÀ°è ¥ÀgÀ¸ÀàgÀ MAzÁV ¨Á¼ÀĪÀÅzÀÄ J®ègÀ PÀvÀðªÀå. F ¤nÖ£À°è ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£ÀªÀÅ CPÀëgÀ eÁÕ£ÀzÀ ªÀÄÆ®PÀ ªÀÄ£À¸ÀÄìUÀ¼À£ÀÄß PÀlÄÖwÛzÉ.

E¸ÁèA zsÀªÀÄðzÀ wgÀļÀÄ ªÀÄvÀÄÛ DZÀgÀuÉ PÀÄjvÀÄ EvÀgÀ zsÀªÀÄðzÀªÀjUÉ PÀÄgïD£ï ªÀÄvÀÄÛ ¥ÀæªÁ¢ ªÀZÀ£ÀUÀ¼À£ÀÄß PÀ£ÀßqÀPÉÌ ¨sÁµÁAvÀj¹ EªÀÅUÀ¼À£ÀÄß PÀ£ÀßqÀ d£ÀvÉUÉ ¥ÀjZÀ¬Ä¸ÀĪÀ §ÈºÀvï PÁAiÀÄð ªÀiÁrzÉ JAzÀgÀÄ.

ªÀÄÄRå CwyAiÀiÁV §AzÀAvÀºÀ PÉÃA¢æÃAiÀÄ «±Àé«zÁå®AiÀÄzÀ ¸ÀºÁAiÀÄPÀ ¥ÉÆæÃ¥sɸÀgï qÁ| «PÀæA «¸Áf ªÀiÁvÀ£ÁqÀÄvÁÛ zsÀªÀÄðzÀ DZÀgÀuÉUÀ¼À §UÉÎ w½zÀÄPÉÆArzÉÝÃªÉ ºÉÆgÀvÀÄ «ZÁgÀUÀ¼À®è, UÀA©üÃgÀ «ZÁgÀ, ±ÉÆÃzÀ £ÀqɹzÁUÀ ¸ÀªÀiÁdªÀ£ÀÄß ¥ÀjªÀwð¸À®Ä ¸ÁzsÀå JAzÀgÀÄ. ¸Á»vÀÛ zÀȶÖPÉÆãÀ¢AzÀ £ÉÆÃr, ªÀiÁ£À«ÃAiÀĪÁV §zÀÄPÀ®Ä w½¸À¨ÉÃPÀÄ. ±ÉæõÀ× aAvÀ£É, ±ÉæõÀ× §gÀºÀ ªÀÄ£ÀĵÀå£À §zÀÄPÀ£ÀÄß UÀnÖUÉƽ¸ÀÄvÀÛzÉ. DzÀÝjAzÀ §zÀÄPÀ£ÀÄß CxÉÊð¸ÀĪÀÅzÀÄ, ¥ÀjªÀwð¸ÀĪÀÅzÀÄ ¸Á»vÀåzÀ GzÉÝñÀªÁVzÉ JªÀÄzÀgÀÄ.

¸ÁªÀiÁfPÀ ¥ÀjªÀvÀð£É JA§ÄzÀÄ £ÀA©PÉ ªÉÄÃ¯É DzsÁgÀªÁVzÉ. ¸ÀºÉÆÃzÀgÀvÀé, ¸ÀºÀ¨Á¼Éé, ±ÁAw, zsÀªÀÄð «±ÉèõÀuÉ, ¦æÃw¬ÄAzÀ ¨Á®ÄªÀÅzÀÄ ¸ÁªÀiÁfPÀ ¥ÀjªÀvÀð£ÉAiÀÄ ¹zÁÝAvÀªÁVzÉ JAzÀÄ »jAiÀÄ ¸Á»w ¥ÉÆæÃ. ªÀ¸ÀAvÀ PÀĵÀÖV ºÉýzÀgÀÄ.

J¯Áè zsÀªÀÄðUÀ¼À ¸ÁgÀ MAzÉà DVzÀÄÝ ¸Á»vÀÛAiÀÄ J¯Áè ¨sÁµÉUÀ¼À ¸ÀgÀ¸ÀªÀwAiÀiÁVzÉ. £ÁªÀÅUÀ¼ÀÄ ºÉÆgÀV£À w½ªÀ½PÉUÉ zÁ¸ÀgÁUÀÄwÛzÀÄÝ M¼ÀV£À w½ªÀ½PÉAiÀÄ£ÀÄß PÀ¼ÉzÀÄPÉƼÀÄîwÛzÉêÉ. »ÃUÁV ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ ¥ÀĸÀÛPÀUÀ¼À£ÀÄß NzÀ¨ÉÃPÀÄ JAzÀgÀÄ.

¤eÁªÀÄgÀ PÁ®zÀ°è ªÀÄĹèA ªÀÄvÀÄÛ »AzÀÄ zsÀªÀÄðUÀ¼ÀÄ JgÀqÀÄ PÀtÄÚUÀ¯ÁVzÀݪÀÅ. »AzÀÄ zsÀªÀÄðzÀ zÉêÁ®AiÀÄUÀ½UÉ ¤eÁªÀÄgÀÄ ¢Ã¥À ºÉÆwÛ¸À®Ä JuÉß PÉÆqÀÄwÛzÀÝgÀÄ. C®èzÉ ªÀiÁvÀÈ ¨sÁµÉ ±ÀPÀëtPÉÌ ¥ÉÆæÃvÁ컸ÀÄvÀÛ PÀ£ÀßqÀ ªÀiÁzsÀåªÀÄzÀ ±Á¯ÉUÀ¼À£ÀÄß vÀgÉAiÀÄÄwÛzÀÝgÀÄ JAzÀgÀÄ. GzÀÄð ¨sÁµÉ J£ÀÄߪÀÅzÀÄ ªÀÄĹèA ¨ÁµÉ J£ÀÄߪÀÅzÀÄ vÀ¥ÀÄà. ¨sÀµÉUÉ AiÀiÁªÀ eÁwAiÀÄÆ E®è. DzÀgÉ »AzÀÄ-ªÀÄĹèAgÀ°è ¨ÉÃzÀ¨sÁªÀ ºÉZÁÑUÀÄwÛgÀĪÀÅzÀÄ ¨ÉøÀgÀzÀ «µÀAiÀÄ JAzÀgÀÄ.

gÀhÄÄ®áPÁgÀ C° AiÀĪÀgÀ PÀÄgï D£ï ¥ÀoÀt ªÀÄvÀÄÛ PÀ£ÀßqÀ C£ÀĪÁzÀzÉÆA¢UÉ DgÀA¨sÀªÁzÀ F PÁAiÀÄðPÀäzÀ°è f¯Áè ¸ÁéUÀvÀ ¸À«ÄwAiÀÄ ¸ÀAZÁ®PÀ ªÀÄĺÀªÀÄäzï C§zÀįï SÁzÀgÀ ¥Áæ¸ÁÛ«PÀ ¨sÁµÀt ªÀiÁrzÀgÀÄ. ¨Á¨Á ¸ÁºÉç ºÀÄAqÉPÀgÀ PÁAiÀÄðPÀæªÀÄzÀ ¤gÀÆ¥ÀuÉ ªÀiÁrzÀgÀÄ.f¯Áè ¸ÁéUÀvÀ ¸À«ÄwAiÀÄ ¸ÀzÀ¸ÀågÁzÀ ªÉÄÃgÁd ¥ÀmÉî, ªÀĸÁÛ£À ©gÁzÁgÀ, dªÀiÁCvÉ E¸Áè«Ä »Azï ¸ÁܤÃAiÀÄ CzsÀåPÀëgÁzÀ gÀhÄQgÀ ºÀĸÉÃ£ï ªÉâPÉ ªÉÄÃ¯É G¥À¹ÜvÀjzÀÝgÀÄ



الہی ہدایت پر مبنی لٹریچر سے ہی معاشرہ میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے:محمداسحاق منگلور
شانتی پرکاشنہ کے اختتامی پروگرام سے وسنت کشٹگی ، وکرم وساجی اور محمد عبدالقادر کا خطاب


شانتی پرکاشنہ کی جانب سے گزشتہ پچیس سالوں میں شائع کئے گئے 250 کتابوں میں سے ایک بھی لٹریچر مشاعرہ میں بگاڑ و انتشار پیدا نہیں کیا بلکہ اس کے ذریعہ رواداری کی فضاء پروان چڑی ہے۔ ان خیالات کو محمد اسحاق پتور، رکن شانتی پرکاشنہ منگلور نے شہر کے کنڑا بھون میں ایک ہفتہ سے چلے آرہے عظیم کتب میلے کے اختتامی پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ آپ نے کہ کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کی جانب سے شائع ہونے والے لٹریچر کی بنیاد وہاں کے کسیذمہ دار یا کسی شخصیت کی سونچ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خدائی ہدایات جو قرآن مجید ، حدیث و سیرت رسول ﷺ کی شکل میں ہیں کی بنیاد ہے۔ اسلام ایک امن، رواداری بھائی چارہ ، حقوق انسانی کا علم بردار دین ہے لہذا اس کی بنیاد پر تیار ہونے والے لٹریچر میں یہی اقدار ہونی چاہئے اور شانتی پرکاشنہ انہیں تعلیمات کو عام کرنے میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ آپ نے کہاکہ اس کی سب میں بڑی خدمت یہی رہی ہے کہ کنڑا عوام کو اللہ کے کلام کا تعارف اس کے ترجمعہ و تفسیر کا کنڑا زبان میں پیش کرتے ہوئے کیا۔ لٹریچر کے ذریعہ سماج میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے کی زبردست تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کی اس کی بنیاد کسی انسان کی سونچ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کی سونچ میں انتشار ہوسکتا ہے اور اس میں رواداری ہمیشہ رہنا ناممکن ہے۔ اسحاق پتور نے کہا کہ جب تک لٹریچر کی بنیاد دین نہیں ہوتا وہ پاکیزہ اور اخلاق پر مبنی نہیں ہوسکتا ۔ اور دین بھی وہ ہو جو خدا کا خوف انسان نے اندر پیدا کرے اور اسی کی رہنمائی میں وہ اپنی زندگی گزارنے کے لئے آمدہ ہوجائے۔ سماج انسانوں سے بنتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کا ایک ایک فرد اپنا تذکیہ کرے اور اس کی بنیاد خدا کو خوف ہو اور آخرت کی جوابدہی کا احساس ہو۔ اسی طرح کا لٹریچر سماج میں اصلاح کا کام کرسکتا ہے۔ اسی لئے شانتی پرکاشنہ نے اسی مقصد کو لیکر اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہے اور یہی نتیجہ ہے کہ ریاست کے مذہبی رہنماؤں و اہل علم حلقہ میں زبردست خراج تحسین حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
پروگرام میں شہر کی بزرگ ومعروف کنڑا ادیب شخصیت وسنت کشٹگی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لٹریچر، امن اور اصلاح معاشرہ ان تینوں کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ امن کے قیام اور اصلاح معاشرہ کے لئے بہترین ادب کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی خدمت شانتی پرکاشنہ کر رہا ہے۔ اس کے ذریعہ سے شائع ہونے والے لٹریچر سے میں خود بھی متاثر ہوا ہوں۔ اس کے ذریعہ یہ پیغام لوگوں کو ضرورمل رہا کہ مسلمان بھارت کے ہی ہیں اور اسی سے ان کا تعلق رہا ہے اور رہے گا۔حیدرآباد نظام کے دور حکومت کا تذکرہ کرتے ہوئے وسنت کشٹگی نے کہا کہ نظام کے حکومت میں ہی مادری زبان میں بنیادی تعلیم کو لاظم کیا گیا تھا اور اسی کی تکمیل کے لئے کنڑا اسکول کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا۔ اور کہا کہ نظام کے لئے ہندو اور مسلمان اس کی دو انکھوں کی طرح تھے۔ گلبرگہ سینٹرل یونورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وکرم وساجی اپنے خطاب میں کہا کہ دستور ہند کے مقدمہ میں ہی جو باتیں ہیں ان کے ذریعہ سے معاشرہ میں امن کے قیام کیبنیادیں ملتی ہیں۔ مختلف مذاہب و فلسفوں کی روشنی میں اپنی بات کو پیش کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ لٹریچر معاشرہ میں اصلاحات لانے کا موثر ذریعہ ہے۔


Lecture by Prof: Somshekhar Appugere



Lecture by Dr Nagabai Bulla

zsÁ«ÄðPÀ ¨ÉÆÃzsÀ£ÉUÀ¼À C£ÀĸÀgÀuɬÄAzÀ ±ÁAw ¸Áܦ¸À®Ä ¸ÁzsÀå: qÁ|| £ÁUÁ¨Á¬Ä §Ä¼Áî

¢£ÁAPÀ 15.11.2013 gÀAzÀÄ ¸ÀAeÉ 6.30 UÀAmÉUÉ PÀ£ÀßqÀ ¨sÀªÀ£ÀzÀ°è ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ gÀdvÀªÀĺÉÆÃvÀìªÀzÀ CAUÀªÁV £ÀqÉzÀ G¥À£Áå¸À PÁAiÀÄðPÀæªÀÄzÀ°è qÁ|| £ÁUÁ¨Á¬Ä §Ä¼Áî, ¥ÉÆæÃ¥sɸÀægï ªÀÄvÀÄÛ ªÀÄÄRå¸ÀÜgÀÄ, PÀ£ÀßqÀ «¨sÁUÀ, UÀÄ®âUÁð «±À«ézÁå®AiÀÄ ªÀiÁvÀ£ÁqÀÄvÀÛ ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£À¢AzÀ ¥ÀæPÀqÀUÉÆAqÀ ¸Á»vÀÛAiÀÄ¢AzÀ «±ÉõÀªÁV ºÉÊzÀgÁ¨ÁzÀ PÀ£ÁðlPÀzÀ d£ÀªÀgÀÄ ¸ÀzÀÄ¥ÀAiÉÆÃUÀ ¥ÀqÉzÀÄPÉƼÀî¨ÉÃPÀÄ JAzÀÄ PÉgÉ ¤ÃrzÀgÀÄ.

¨sÁgÀwÃAiÀÄ ¸ÀA¸ÀÌøwAiÀÄ°è ±ÁAw¬ÄzÉ. gÁªÀiÁAiÀÄt ªÀĺÁ¨sÁgÀvÀzÀ°è C¤ªÁAiÀÄðªÁzÁUÀ AiÀÄÄzÀÞªÁVgÀĪÀÅzÀ£Àß £ÁªÀÅ £ÉÆÃqÀÄvÉÛêÉ. DzÀgÉ £ÀAvÀgÀzÀ ¢£ÀUÀ½î gÁdå «¸ÀÛgÀuÉUÁV AiÀÄÄzÀÞUÀ¼ÁVªÉ JAzÀgÀÄ. ªÁ¸ÀÛªÀzÀ°è J¯Áè zsÀªÀÄðUÀ¼ÀÄ ±ÁAwAiÀÄ£ÀÄß §AiÀĸÀÄvÀÛªÉ, AiÀÄÄzÀÞzÀ°è UÉzÀݪÀ£ÀÄ ªÁ¸ÀÛªÀzÀ°è ¸ÉÆîÄvÁÛ£É ºÁUÀÄ ¸ÉÆÃvÀªÀ£ÀÄ ªÁ¸ÀÛªÀzÀ°è UÉ¢ÝgÀÄvÁÛ£É, KPÉAzÀgÉ °è «£Á±À«zÉ. zÀÄAiÉÆÃðzsÀ£À ªÀÄvÀÄÛ C±ÉÆÃPÀ gÀ°è GAmÁzÀ §zÀ¯ÁªÀuÉAiÉÄà EzÀPÉÌ ¸ÀÆPÀÛ GzÁºÀgÀuÉAiÀiÁVzÉ JAzÀgÀÄ. eÉÊ£ÀÀ zsÀªÀÄðzÀ ªÀÄÆ® ªÀÄAvÀæªÉà C»A¸ÉAiÀiÁVzÉ, AiÀÄÄzÀÞzÀ ¸ÀAzÀ¨sÀð §AzÁUÀ vÀªÀÄäªÀgÀ£ÀÄß AiÀÄÄzÀÞzÀ°è ±Á«ÄïÁUÀĪÀÅzÀ£Àß vÀqÉAiÀÄ®Ä ¨sÀgÀvÀ ¨sÁºÀħ° vÀªÀÄä £ÀqÀĪÉAiÉÄà AiÀÄÄzÀÞ ªÀiÁrzÀgÀÄ vÀgÀĪÁAiÀÄ UÉ®ÄèªÀAvÀºÀ ¥Àj¹ÜwAiÀÄ°è ¨ÁºÀħ° vÀ£Àß ¸ÀªÀð¸ÀéªÀ£ÀÄß ¨sÀgÀvÀ¤UÉ PÉÆlÄÖ©lÖ£ÀÄ JAzÀgÀÄ.

EAzÀÄ £ÁªÀÅ PÀÄgï D£ï, ªÉÃzÀ, ªÀZÀ£À NzÀÄvÉÛÃªÉ DzÀgÉ CzÀgÀAvÉ £ÀqÉzÀÄPÉƼÀÄîªÀÅ¢®è.EzÀjAzÀ ªÀ£Á±ÀªÁUÀÄwÛzÉ JAzÀgÀÄ. ªÀÄ»¼É J¯Áè PÁ®UÀ¼À°è ±ÉÆÃóuÉUÉƼÀUÁVzÁݼÉ. ¸ÁévÀAvÀæöå ªÀÄvÀÄÛ ²PÀët ¢AzÀ ªÀÄÄAzÉ §gÀÄwÛzÀÝ ªÀÄ»¼É PÀ¼ÉzÀ ºÀ®ªÀÅ ªÀzÀåªÀiÁ£ÀUÀ½AzÀ ªÀÄvÉÛ »AzÀPÉÌ CªÀ¼À£ÀÄß vÀ¼Àî¯ÁUÀÄwÛzÉAiÉÄà JA§AvÉ ¨sÁ¸ÀªÁUÀÄwÛzÉ JAzÀgÀÄ.

ªÀiÁzsÀåªÀÄzÀªÀgÀÄ ºÉƸÀ¦Ã½UÉAiÀÄ£ÀÄß vÀªÀÄä ¸ÀA¸ÀÌøw¬ÄAzÀ zÀÆgÀÄ ªÀiÁqÀÄwÛªÉ. CzÀgÀ ¥Àæ¨sÁªÀ £Àåd ¨ÉÆÃzsÀ£ÉUÉ CrØAiÀiÁVzÉ. EAzÀÄ PÉƼÀÄîªÀ ¸ÀA¸ÀÌøw ¨É¼ÉAiÀÄÄwÛzÉ,

ªÀÄĹèA ¸ÀªÀÄÄzÁAiÀÄzÀ §UÉÎ EgÀĪÀ ¸ÀªÀĸÀåUÀ¼À §UÉÎ ºÀ®ªÀÅ ¯ÉÃRPÀgÀ PÀÈwUÀ½AzÀ ªÀiÁvÀæ CjAiÀÄĪÀ ¥ÀæªÉÄÃAiÀÄ EzÀÝ ¸ÀAzsÀ¨sÀðzÀ°è ±ÁªÀÄvÀÄ ¥ÀæPÁ±À£ÀªÀÅ F zsÀªÀÄðzÀ ªÀiË®åUÀ¼À£ÀÄß PÀ£ÀßrUÀjUÉ ªÀÄjZÀ¬Ä¹gÀĪÀÅzÀÄ ±ÁèWÀ¤ÃAiÀÄ JAzÀgÀÄ.

مذہبی کی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہی بگاڑ دور ہوسکتا ہے 

کنڑا بھون میں منعقد ہوئے شانتی پرکاشنہ کے لکچر پروگرام میں ڈاکٹر ناگابائی بُڑّا کا خطاب

شانتی پرکاشنہ کی جانب سے شائع کے جارہے بہت ساری کتابوں سے اس علاقہ کے لوگ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ان خیالات کو ڈاکٹر ناگابائی بڑا ، پروفیسر و صدر، کنڑا ڈپارٹمنٹ، گلبرگہ ینورسٹی نے آج بروز جمعہ شانتی پرکاشنہ کے25 سالہ تقاریب کے ضمن میں کنڑا بھوان میں منعقد کئے گئے ایک لکچر سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔آپ نے کہا کہ امن و ادب کے نام پر منائے جارہے اس مہم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آج ہم امن سے محروم ہیں اور ادب سماجی مسائل کو دور کرنے اور بھائی چارہ پیدا کرنے کا کام کریگا۔ آپ نے کہا کہ بھارت حقیقت میں امن پسند ملک رہا ہے ۔ راماین و مہابھارت میں جنگ اسی وقت کی گئی جب ناگزیر تھی۔ بعد کے عدوار میں راجہ و بادشاہوں نے اپنے ملک کے حدود کو بڑھانے کے کئے لوگوں پر جنگ تھوپنے کا کام کیا ہے۔ تمام دھرم میں امن کی تعلیمات ملتی ہیں کیوں کے جنگ میں سوائے نقصان کے کچھ بھی نہیں۔ جنگ میں جس کی جیت ہوتی ہے دراصل اس کی ہار ہے اور جس کی ہار ہوتی ہے دراصل اس کی جیت ہے۔ اسی لئے دُریودھن و اشوک نے جنگوں میں جیتنے کے بعد بھی غمگین رہے اور اشوک تو اپنا اقتدار چھوڑ کر دھرم کی تبلیغ میں لگ گیا۔جین دھرم اہنسا کی بنیاد پر ہی ہے۔ یہاں بھی بھرت اور باہوبلی کے درمیان جنگ کا موقع آتا ہے تو اپنے ساتھیوں کو جنگ میں شامل کرنے سے بچانے کے لئے وہ خود اپنے درمیان لڑتے ہیں اور جب باہوبلی جیت کے دہانے پر ہوتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اس اقتدار کے لئے یہ سب مناسب نہیں اور وہ سب کچھ بھرت کو دے کر نکل پڑتا ہے۔ آج لوگ قرآن، وچن و وید پڑھتے ہیں لیکن اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے تمام بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ مذہب کے نام پر عورت کا آج بھی کا استحصال کیا جارہا ہے۔ پچھلے کچھ واقعات سے محسوس ہوتا ہے کہ پھر ہم پیچھے کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ میڈیا جس طرح کا تعمیری رول ادا کرنا تھا وہ ادا نہیں کررہا ہے جس کی وجہ سے نئی نسل کو اقدار سکھانا مشکل ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کو سارا ابوبکر و بانو مشتاق کی تحروں سے ہی سمجھا جاتا تھا لیکن اب شانتی پرکاشنہ کی جانب سے شائع ہوئی کتابوں کے ذریعہ اس کی صحح تعلیمات سے واقفیت ہوسکتی ہے۔ 

صداراتی کلمات پیش کرتے ہوئے سنجے ماکل ، صدر وشوا لنگایت مہا سبھا گلبرگہ نے کہا کہ قرآن اور بسویشور کی تعلیمات میں کوئی تزاد نہیں پایا جاتا ۔ تمام بگاڑ منو سمرتی میں دیکھے کو ملتا ہے اسی کی تعلیمات کی وجہ سے یہان پر ورن پر مبنی سماج اور بت پرستی عام ہوئی ہے۔
ذولفقار علی کی تلاوت قرآن مجید سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ ذاکر حسین، محمد عبدالقادرشہ نشین پر تشریف فرما تھے۔

Play by Sanchi Sarambh

£ÁlPÀ “¸À£Áä£Àå ¸ÀaªÀgÀ ¸ÁªÀÅ”