رمضان المبارک کے بعد بھی کوئی تبدیلی محسوس نہ ہوئی تو اللہ تعالی سے قلب سلیم کی دعا کی جائے
نماز جمعہ سے قبل جامع مسجد محبس میں مولوی محمد فہیم الدین کا خطاب
دنیا میں ہر کلام کااثر ہوتاہے۔ کسی کی گالی بھی ہمارے اندر اثر کرتی ہے، لعل پیلے ہوتے ہیں، بی۔پی۔بڑھتا ہے، یہاں تک کہ منہ سے جھاگ جاری ہوجاتا ہے۔ قرآن کی اثر انگیزہ بھی مسلمات میں سے ہے۔ اس کلام کے اثرات قلب و روح پر ہوتے ہیں ۔ اس کلام کے زیر اثر اللہ والوں کا غور و فکر کرنا بڑا اہم ہوتا ہے۔ اس کلام کو سننے کے بعد انسان کے اندر تبدیلی محسوس ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اپنے باطن کا جائزہ لینا چائے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا محمد فہیم الدین ، رکن مجلس شوریٰ، جماعت اسلامی ہند کرناٹک و گوآ نمازجمعہ سے قبل مسجد محبس میں موجود ہزاروں بردارن ملت سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر قرآن مجید کی تلاوت ہمارے اندر یہ احساس دلانے میں کامیاب کرے کہ میرے ساتھ اللہ ہے میں جہاں کہیں بھی ہوں تو گویا ہمارے اندر اسلام کا صحیح تصور بٹھانے میں کامیاب ہوا۔ کیوں کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں بندوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ تم تعداد میں تم کم ہو کہ زیادہ میں وہاں موجود ہوتا ہوں۔ اگر یہ احساس ہمارے اندر پیدا نہیں ہوتا تو گویا کہ ہماری زندگی میں ایک اندھیرا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے رب سے تعلق کو جوڑنا چاہئے۔ ایک مثال سے اسکو سمجھاتے ہوئے کہا کہ جس طرح برقی تار میں کرنٹ رہنے کے باوجود اس میں جوڑ پیدا ہونے تک روشنی پیدا نہیں ہوتی اسی طرح اگر ہمارا تعلق اپنے مولا سے نہیں رہا تو اس قرآن کی تلاوت سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس لئے جتنے رسول اس دنیا میں آئے بندوں کو انکے رب جوڑا۔ جب کسی بندے کا تعلق اپنے رب سے اور اپنے رسول ﷺ سے جڑ جاتا ہے تو اسکو یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں پڑھتی کہ نماز پڑھو،روزہ رکھو، زکوٰۃ دو، حج کرو، اس بات کی تلقین کی بھی ضرورت نہیں پرھتی کی حق بات کی گواہی دو، امانتداری کا معاملہ کرو، وعدہ پورا کرو، شوہر ، بیوی، اولاد، والدین ، رشتہ دار، پڑوسیوں، کے حقوق ادا کرتے رہو۔ اس بات کی یاد دہانی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی کہیتیم، مسکین، لاوارث، لاچار لوگوں سے ہمدردانہ سلوک کیاجائے۔ اللہ اور رسول سے تعلق ایک بندہ مومن میں یہ زمہ داری دلاتا ہے کہ دشمن کے ساتھ ظلم نہ کیا جائے، رزق حلال ہی پر اکتفاء کیا جائے، زبان کھولئے تو حق کے خاطر، ہاتھ اٹائے تو برائی کو روکنے کی خاطر۔ جب بندے کا تعلق خدا سے جڑھ جاتا ہے تو رات میں کچھ لمحات اللہ کے حضور اپنے خطاؤں کی بخشش کئے لئے گزارتا ہے، طوبہ و استغفار کرتا ہے، قبرستان سے گزر ہوتا ہے تو اہل قبور کے حق میں مغفرت کی دعا کرتا ہے، دوست و احباب کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے۔ اس طرح جب کوئی رمضان میں قرآن سے اور اللہ سے تعلق جوڑتا ہے تو اس کے اندر ایسی تبدیلی آتی ہے جیسے مہندی لگے ہاتھ اور اس کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ کُھلی عطردان سے جس طرح خوشبو نکل کر ماحول کو موعطر کرتی ہے۔ اسی طرح مولانا نے کہا کہ اگر رمضان لمبارک کے بعد بھی اس طرح کی کوئی تبدیلی اپنے اندر نہ پاؤ تو اپنے رب سے قلب سلیم نصیب کرنے کی دعا کرو۔مولووی فہیم الدین صاحب نے حاضرین سے کہا کہ جب اکیلے ہوتے ہیں تو اپنے قلب کا جائزہلیناچاہئے۔اس سینے کو قرآن سے منور کرانا چاہئے۔ اس کو آباد قرآن کی تلاوت سے کیا جاتا ہے۔ اس کے زریعہ روح کو تازگی اور ارتقاء نصیب ہوتی ہے۔ اسی طرح نماز کی حالت میں بھی اپنے دل کا جائزہ لینا چاہئے۔ حاضرین سے کہا کہ روزہ پانی، کھانا اور مباشرت سے روکتا ہے ۔ ایسی حالت میں قرآن کی تلاوت اثر کرتی ہے۔ اس کو پڑھ کر کتنے ہی لوگ ایمان لے آئے۔ لیکن آج ہم اس کو نہیں سمجھتے یہ ہماری بہت بڑی کمزوری ہے۔ اور کہا کہ قرآن روشنی ہے جو ہمیں تاریکیوں سے نکالتی ہے۔ دنیا کے اندھیروں کو اس کی روشنی سے دور کیا جاسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment