Monday, December 23, 2013

Program at MSK Mills on 22.12.2013


جو روشنی مسلمانوں کے پاس ہے اسکو اہل وطن کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔


جماعت اسلامی ہند گلبرگہ کے دعوتی اجتماع میں ذاکر حسین ، سید ساجد سلیم، سید تنویر ہاشمی، محمد یوسف خان، محمد ضیاء اللہ، عبدالقدوس کا خطاب 


اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات واختیارات میں شرک کرنا بہت بڑا گناہ ہے اس سے بچتے ہوئے توحید خالص کو لازماََ پکڑنا چاہئے اور اسی کے ذریعہ کامیابی ممکن ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے شعوری تعلق ضروری ہے۔ ان خیالات کو آج محمدی فنکشن ہال میں جماعت اسلامی ہند گلبرگہ کی جانب سے منعقد کئے گئے کل یومی دعوتی اجتماع میں اختتامی خطاب کرتے ہوئے امیر مقامی ذاکر حسین نے کیا۔ آپ نے کہا کہ اس ملک میں مسلمانوں کی منفرد حیثیت ہے کہ وہ اس ملک میں کاشت کرتے ہوئے خود بھی زندہ و پائندہ رہیں اور اسلام کی سربلندی کے لئے کوشش کرتے رہیں۔ ذاکر حسین نے کہا کہ اس ملک میں صرف مسلمانوں کے پاس خداکی طرف سے نازل ہونے والی روشنی اپنی اصل حیثیت میں ہے اس کے ذریعہ وہ دیگر اقوام کو روشنی دکھائیں۔ اس کے لئے نبی کریم ﷺ ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ ایک حدیث کے حوالے سے آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تم پر وہ فرائض عائد کئے ہیں جن کو اس سے پہلے نبیوں و پیغمبروں پر عائد کیا گیا تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کو 
انسانوں کو انسانوں کیغلامی سے نکال کر خدا کی غلامی میں لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ 

پروگرام کا آغاز سید ساجد سلیم کے درس قرآن سے ہوا۔ سورۃ الحج کی آخری دو آیات کی روشنی میں درس دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان آیات میں رکوع و سجدہ کرنے، بندگی رب بجا لانے اور نیک کام کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رکوع و سجود کے مفہوم میں نماز اور بندگی رب میں اپنی پوری زندگی کو رب کی مرضی پر چلاناہوتا ہے اور وہ نیک کام کرنا چاہئے جن سے انسانوں کا بھلا ہوتا ہو۔ آپ نے کہا کہ اللہ کی رہ میں ایسی جد وجہد کرنا ہے کہ اس کا حق ادا ہوجائے۔ آپ نے کہا کہ اللہ تعلیٰ جہاد کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن دور جدید میں اس کے معنی کو اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ اس لفظ سے لوگ خوف کھانے لگے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جو ظلم و زیادتی اور نافرمانی ہورہی ہے اس کے خلاف جد وجہد کا نام جہاد ہے۔ آپ نے کہا کہ جس طرح حضرت ابرھیم ؒ نے ایک اطاعت گزار و فرمابردار بندہ ہونے کا سبوط دیا اسی طرح ہمارے لئے بھی لازم ہے کہ بندگی رب و مسلمان ہونے کے تمام تقاضے پورے کریں۔ 

اجتماعیت : سلام میں اس کا مقام اور امیتعنوان پر خطاب کرتے ہوئے محمد ضیاء اللہ نے کہا کہ انسان دور قدیم سے ہی اجتماعیت پسند واقع ہوا ہے۔ اسلام اس کو پروان چڑھانا چاہتا ہے کیوں کہ اسلام دین فطرت ہے۔ آپ نے کہا کہ یہ اللہ تعلیٰ کا حکم بھی ہے اور نبی کریم ﷺ کے بیشمار ارشادات سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اجتماعیت سے جڑکر رہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر اس کی کامیابی ناممکن ہے۔ مسلمانوں کے تمام عبادات چاہے نماز ہو کہ روزہ، حج ہو کہ زکوۃ اسی بات کی تلقین کرتی ہیں کہ اجتماعیت کی اہمیت اسلام میں کیا ہے۔ دنیوی معاملات کے سلسلے میں بھی یہ بات بتائی گئی ہے کہ بیابان میں اگر تین آدمی ہوں تو ان میں ایک امیر ہونا چاہئے اور تین لوگ مل کر صفر کر رہے ہوں تو ان میں ایک کو امیر بنانا چاہئے۔ اگر کوئی اجتماعیت سے جڑ کر زندگی نہیں گزارتا تو اس کو شیطان اچک لیتا ہے، ماحول کے غلط اسرت اس پر پڑتے ہیں، دین کی اتباع کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور دین کے کم سے کم مطالبات بھی پورے کرنا اس کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔ 

انسانی زندگی پر نظام حکومت کے اثرات عنوان پر خطاب کرتے ہوئے سید تنویر ہاشمی نے مختلف نظام ہائے حکومت کے طرز حکومت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ مذہب کے نام پر چرچ کی حکومت یوروپ میں ہوا کرتی تھی ۔ لوگوں کی بڑی تعداد اس کے تحت تھی لیکن چرچ کی زیادتی ک وجہ اس کی جگہ سوشیلزم اور جمہوریت نے جنم لیا۔ روس و چین میں کمونسٹ نظام کے نافظ ہونے کی وجہ سے وہاں کے کسانوں کی زمینوں کو حکومت اپنے قبضہ میں لے لیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قومی پیداوار میں نمایا کمی واقع ہوتی ہے۔جو کہ کروڑوں انسانوں کوبھوک کی وجہ سے مارے جانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ امریکی جمہوریت پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ جمہوریت میں جہاں پر عوام کی مرضی چلتی ہے وہ کس طرح معاشرہ پر اثر انداز ہوتی ہے کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ پہلے پہل نوجوان نسل کے لئے اخلاقی تعلیمات کو پڑھانے کا نظم تھا ۔ کچھ عرصے بعد لوگوں نے اس کو غیر ضروری محسوس کیا تو اسکو نکالا گیا اور پھر ایک دور آیا کہ جنسی تعلیم اسکول و کالج میں دی جانے لگی یہاں تک کہ ہم جنس پرستی کی باضابطہ ویڈیؤ دیکھنا لازمی کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں آج امریکی سوسائیٹی جو اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوئی اور آج اس کا یہ حال ہے کہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کونہیں معلوم کے انکا باپ کون ہے۔ ان کے مخابلے میں اسلام جو نظام حکومت پیش کرتا ہے اس میں اللہ کے احکامات کو بنیاد بنایا جاتا ہے اور انسان اس کا خلیفہ ہونے کے ناتے وہ ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ یہاں پر انساوں کو صرف انہیں معاملات میں قانون بنانے کی گنجائش ہوتی ہیں جہاں قرآن و سنت خاموش رہتی ہیں۔ اس لئے اسلامی نظام حکومت ایک نظام رحمت ہوتا ہے۔

اقامت دین : مفہوم اور طریقہ کار کے عنوان پر اظہار خیال کرتے ہوئے محمد یوسف خان نے کہا کہ دین سے مراد وہ دین ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے پیغمبروں کے ذریعہ ہم تک پہنچا اور اس کی آخری ایڈیشن کے طور پر نبی کریم ﷺ پر ناز ل ہوا۔ اس کی اقامت کا مطلب ہے کہ جس طرح وہ ناز ل ہوا ہے اسی طرح انسانی زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اس کو نافظ کیا جائے۔ اسی کے لئے آپ نے کہا کہ امت مسلمہ کو وجود میں لایا گیا ۔ خیر امت ہونے کے ناطے وہ شہادت الناس کا فریضہ انجام دے اور نظام کو تبدیل کرنے کی کوش کرے۔ اس کے طریقہ کارپر اظہار کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ قرآن و سنت کی روشنی میں دستوری و آئینی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے تعلیم و تربیت، تفہیم و تذکیر کے ذریعہ ایک ایک فرد کو مخاطب ہوتے ہوئے فرد کی زندگی میں تبدیلی لانے کی کوش کرے گی اور رائے عامہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی۔ ان تمام معاملات میں اخلاقی قدروں پر عمل کرے گی۔ 

دوپہر کی نشست میں رفیق خان درانی نے فکر آخرت کے عنوان پر درس حدیث پیش کیا اور عبدالقدوس نے حالیہ انتخابات اور ہمار اموقف عنوان پر اظہار خیال کیا۔ محمد عبدالقادر منصوری اور محمد ضیاء الحق نے دنوں نشتوں میں بالترتیب نظامت کے فرائض انجام دئے۔ محمد مظہرالدین نے افتتاحی کلمات و کلمات تشکر پیش کیا۔ بڑی تعداد میں شرکاء شریک رہے۔

No comments:

Post a Comment