Tuesday, November 26, 2013

Lecture by Dr Nagabai Bulla

zsÁ«ÄðPÀ ¨ÉÆÃzsÀ£ÉUÀ¼À C£ÀĸÀgÀuɬÄAzÀ ±ÁAw ¸Áܦ¸À®Ä ¸ÁzsÀå: qÁ|| £ÁUÁ¨Á¬Ä §Ä¼Áî

¢£ÁAPÀ 15.11.2013 gÀAzÀÄ ¸ÀAeÉ 6.30 UÀAmÉUÉ PÀ£ÀßqÀ ¨sÀªÀ£ÀzÀ°è ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£ÀzÀ gÀdvÀªÀĺÉÆÃvÀìªÀzÀ CAUÀªÁV £ÀqÉzÀ G¥À£Áå¸À PÁAiÀÄðPÀæªÀÄzÀ°è qÁ|| £ÁUÁ¨Á¬Ä §Ä¼Áî, ¥ÉÆæÃ¥sɸÀægï ªÀÄvÀÄÛ ªÀÄÄRå¸ÀÜgÀÄ, PÀ£ÀßqÀ «¨sÁUÀ, UÀÄ®âUÁð «±À«ézÁå®AiÀÄ ªÀiÁvÀ£ÁqÀÄvÀÛ ±ÁAw ¥ÀæPÁ±À£À¢AzÀ ¥ÀæPÀqÀUÉÆAqÀ ¸Á»vÀÛAiÀÄ¢AzÀ «±ÉõÀªÁV ºÉÊzÀgÁ¨ÁzÀ PÀ£ÁðlPÀzÀ d£ÀªÀgÀÄ ¸ÀzÀÄ¥ÀAiÉÆÃUÀ ¥ÀqÉzÀÄPÉƼÀî¨ÉÃPÀÄ JAzÀÄ PÉgÉ ¤ÃrzÀgÀÄ.

¨sÁgÀwÃAiÀÄ ¸ÀA¸ÀÌøwAiÀÄ°è ±ÁAw¬ÄzÉ. gÁªÀiÁAiÀÄt ªÀĺÁ¨sÁgÀvÀzÀ°è C¤ªÁAiÀÄðªÁzÁUÀ AiÀÄÄzÀÞªÁVgÀĪÀÅzÀ£Àß £ÁªÀÅ £ÉÆÃqÀÄvÉÛêÉ. DzÀgÉ £ÀAvÀgÀzÀ ¢£ÀUÀ½î gÁdå «¸ÀÛgÀuÉUÁV AiÀÄÄzÀÞUÀ¼ÁVªÉ JAzÀgÀÄ. ªÁ¸ÀÛªÀzÀ°è J¯Áè zsÀªÀÄðUÀ¼ÀÄ ±ÁAwAiÀÄ£ÀÄß §AiÀĸÀÄvÀÛªÉ, AiÀÄÄzÀÞzÀ°è UÉzÀݪÀ£ÀÄ ªÁ¸ÀÛªÀzÀ°è ¸ÉÆîÄvÁÛ£É ºÁUÀÄ ¸ÉÆÃvÀªÀ£ÀÄ ªÁ¸ÀÛªÀzÀ°è UÉ¢ÝgÀÄvÁÛ£É, KPÉAzÀgÉ °è «£Á±À«zÉ. zÀÄAiÉÆÃðzsÀ£À ªÀÄvÀÄÛ C±ÉÆÃPÀ gÀ°è GAmÁzÀ §zÀ¯ÁªÀuÉAiÉÄà EzÀPÉÌ ¸ÀÆPÀÛ GzÁºÀgÀuÉAiÀiÁVzÉ JAzÀgÀÄ. eÉÊ£ÀÀ zsÀªÀÄðzÀ ªÀÄÆ® ªÀÄAvÀæªÉà C»A¸ÉAiÀiÁVzÉ, AiÀÄÄzÀÞzÀ ¸ÀAzÀ¨sÀð §AzÁUÀ vÀªÀÄäªÀgÀ£ÀÄß AiÀÄÄzÀÞzÀ°è ±Á«ÄïÁUÀĪÀÅzÀ£Àß vÀqÉAiÀÄ®Ä ¨sÀgÀvÀ ¨sÁºÀħ° vÀªÀÄä £ÀqÀĪÉAiÉÄà AiÀÄÄzÀÞ ªÀiÁrzÀgÀÄ vÀgÀĪÁAiÀÄ UÉ®ÄèªÀAvÀºÀ ¥Àj¹ÜwAiÀÄ°è ¨ÁºÀħ° vÀ£Àß ¸ÀªÀð¸ÀéªÀ£ÀÄß ¨sÀgÀvÀ¤UÉ PÉÆlÄÖ©lÖ£ÀÄ JAzÀgÀÄ.

EAzÀÄ £ÁªÀÅ PÀÄgï D£ï, ªÉÃzÀ, ªÀZÀ£À NzÀÄvÉÛÃªÉ DzÀgÉ CzÀgÀAvÉ £ÀqÉzÀÄPÉƼÀÄîªÀÅ¢®è.EzÀjAzÀ ªÀ£Á±ÀªÁUÀÄwÛzÉ JAzÀgÀÄ. ªÀÄ»¼É J¯Áè PÁ®UÀ¼À°è ±ÉÆÃóuÉUÉƼÀUÁVzÁݼÉ. ¸ÁévÀAvÀæöå ªÀÄvÀÄÛ ²PÀët ¢AzÀ ªÀÄÄAzÉ §gÀÄwÛzÀÝ ªÀÄ»¼É PÀ¼ÉzÀ ºÀ®ªÀÅ ªÀzÀåªÀiÁ£ÀUÀ½AzÀ ªÀÄvÉÛ »AzÀPÉÌ CªÀ¼À£ÀÄß vÀ¼Àî¯ÁUÀÄwÛzÉAiÉÄà JA§AvÉ ¨sÁ¸ÀªÁUÀÄwÛzÉ JAzÀgÀÄ.

ªÀiÁzsÀåªÀÄzÀªÀgÀÄ ºÉƸÀ¦Ã½UÉAiÀÄ£ÀÄß vÀªÀÄä ¸ÀA¸ÀÌøw¬ÄAzÀ zÀÆgÀÄ ªÀiÁqÀÄwÛªÉ. CzÀgÀ ¥Àæ¨sÁªÀ £Àåd ¨ÉÆÃzsÀ£ÉUÉ CrØAiÀiÁVzÉ. EAzÀÄ PÉƼÀÄîªÀ ¸ÀA¸ÀÌøw ¨É¼ÉAiÀÄÄwÛzÉ,

ªÀÄĹèA ¸ÀªÀÄÄzÁAiÀÄzÀ §UÉÎ EgÀĪÀ ¸ÀªÀĸÀåUÀ¼À §UÉÎ ºÀ®ªÀÅ ¯ÉÃRPÀgÀ PÀÈwUÀ½AzÀ ªÀiÁvÀæ CjAiÀÄĪÀ ¥ÀæªÉÄÃAiÀÄ EzÀÝ ¸ÀAzsÀ¨sÀðzÀ°è ±ÁªÀÄvÀÄ ¥ÀæPÁ±À£ÀªÀÅ F zsÀªÀÄðzÀ ªÀiË®åUÀ¼À£ÀÄß PÀ£ÀßrUÀjUÉ ªÀÄjZÀ¬Ä¹gÀĪÀÅzÀÄ ±ÁèWÀ¤ÃAiÀÄ JAzÀgÀÄ.

مذہبی کی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہی بگاڑ دور ہوسکتا ہے 

کنڑا بھون میں منعقد ہوئے شانتی پرکاشنہ کے لکچر پروگرام میں ڈاکٹر ناگابائی بُڑّا کا خطاب

شانتی پرکاشنہ کی جانب سے شائع کے جارہے بہت ساری کتابوں سے اس علاقہ کے لوگ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ان خیالات کو ڈاکٹر ناگابائی بڑا ، پروفیسر و صدر، کنڑا ڈپارٹمنٹ، گلبرگہ ینورسٹی نے آج بروز جمعہ شانتی پرکاشنہ کے25 سالہ تقاریب کے ضمن میں کنڑا بھوان میں منعقد کئے گئے ایک لکچر سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔آپ نے کہا کہ امن و ادب کے نام پر منائے جارہے اس مہم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آج ہم امن سے محروم ہیں اور ادب سماجی مسائل کو دور کرنے اور بھائی چارہ پیدا کرنے کا کام کریگا۔ آپ نے کہا کہ بھارت حقیقت میں امن پسند ملک رہا ہے ۔ راماین و مہابھارت میں جنگ اسی وقت کی گئی جب ناگزیر تھی۔ بعد کے عدوار میں راجہ و بادشاہوں نے اپنے ملک کے حدود کو بڑھانے کے کئے لوگوں پر جنگ تھوپنے کا کام کیا ہے۔ تمام دھرم میں امن کی تعلیمات ملتی ہیں کیوں کے جنگ میں سوائے نقصان کے کچھ بھی نہیں۔ جنگ میں جس کی جیت ہوتی ہے دراصل اس کی ہار ہے اور جس کی ہار ہوتی ہے دراصل اس کی جیت ہے۔ اسی لئے دُریودھن و اشوک نے جنگوں میں جیتنے کے بعد بھی غمگین رہے اور اشوک تو اپنا اقتدار چھوڑ کر دھرم کی تبلیغ میں لگ گیا۔جین دھرم اہنسا کی بنیاد پر ہی ہے۔ یہاں بھی بھرت اور باہوبلی کے درمیان جنگ کا موقع آتا ہے تو اپنے ساتھیوں کو جنگ میں شامل کرنے سے بچانے کے لئے وہ خود اپنے درمیان لڑتے ہیں اور جب باہوبلی جیت کے دہانے پر ہوتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اس اقتدار کے لئے یہ سب مناسب نہیں اور وہ سب کچھ بھرت کو دے کر نکل پڑتا ہے۔ آج لوگ قرآن، وچن و وید پڑھتے ہیں لیکن اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے تمام بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ مذہب کے نام پر عورت کا آج بھی کا استحصال کیا جارہا ہے۔ پچھلے کچھ واقعات سے محسوس ہوتا ہے کہ پھر ہم پیچھے کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ میڈیا جس طرح کا تعمیری رول ادا کرنا تھا وہ ادا نہیں کررہا ہے جس کی وجہ سے نئی نسل کو اقدار سکھانا مشکل ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کو سارا ابوبکر و بانو مشتاق کی تحروں سے ہی سمجھا جاتا تھا لیکن اب شانتی پرکاشنہ کی جانب سے شائع ہوئی کتابوں کے ذریعہ اس کی صحح تعلیمات سے واقفیت ہوسکتی ہے۔ 

صداراتی کلمات پیش کرتے ہوئے سنجے ماکل ، صدر وشوا لنگایت مہا سبھا گلبرگہ نے کہا کہ قرآن اور بسویشور کی تعلیمات میں کوئی تزاد نہیں پایا جاتا ۔ تمام بگاڑ منو سمرتی میں دیکھے کو ملتا ہے اسی کی تعلیمات کی وجہ سے یہان پر ورن پر مبنی سماج اور بت پرستی عام ہوئی ہے۔
ذولفقار علی کی تلاوت قرآن مجید سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ ذاکر حسین، محمد عبدالقادرشہ نشین پر تشریف فرما تھے۔

No comments:

Post a Comment